ہندکو: پارلیمانی زبان! شبیرحسین اِمام

ژرف نگاہ …. تحریر: شبیرحسین اِمام

برصغیر (پاک و ہند) میں بولی جانے والی زبانوں سے متعلق 1919ءمیں جاری کردہ ایک جائزہ (سروے رپورٹ) بعنوان ”Linguistic Survey of India“ کے مصنف جارج ابراہم گریسن (George Abraham Grierson) نے کتاب کی آٹھویں جلد (والیوم ایٹ) کے پہلے حصے (پارٹ ون) میں جس زبان کا احوال پیش کیا اُسے ’لاہندا (Lahnda)‘ کہا اُور یہ زبان موجودہ سرائیکی و پنجابی علاقوں میں بولی جاتی ہے جبکہ اِن علاقوں کی دوسری نصف آبادی کی زبان کو ہندکو کہا گیا جو برصغیر (پاک و ہند) کے شمال‘ مغرب اُور جنوب کے اکثریتی علاقوں کی بولی تھی۔ اِس تاریخی تناظر کی روشنی میں دیکھا جائے تو پشاور ہندکو زبان بولنے والوں کا مرکزی علاقہ تھا اُور آج بھی یہاں ہندکووانوں کی اکثریت ہے۔ نکتہ لائق توجہ ہے کہ قیام پاکستان کے 72 سال بعد بھی پشاور ہندکو زبان کا مرکز ہے اُور جب ہم ہندکو زبان کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف کسی بولی کا نام نہیں بلکہ رہن سہن کا طریقہ ہے۔ ایک تاریخ ہے۔ ایک عہد ہے اُور ایک سچائی ہے جس کو زوال نہیں۔
ہندکو زبان کے لہجے مختلف ہیں لیکن اِن کے ذریعے اظہار کو جنوب ایشیا (پاکستان‘ بھارت‘ سری لنکا‘ بھوٹان‘ بنگلہ دیش اُور مالدیپ) کے طول و عرض میں سمجھا جاتا ہے اُور خطے کی کسی بھی دوسری زبان کو یہ حیثیت حاصل نہیں کہ جسے باون لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے جنوب ایشائی خطے میں رہنے والے قریب 2 ارب لوگ بولتے یا سمجھتے ہوں لیکن افسوس کہ ہندکو زبان کو اُس کے مرکز پاکستان میں اپنی حیثیت منوانے کے لئے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے اُور اِس سلسلے میں تازہ ترین پیشرفت خیبرپختونخوا اسمبلی میں پیش ہونے والی ایک قرارداد ہے‘ جس کے ذریعے اسمبلی کاروائی کو براہ راست ہندکو زبان میں ترجمہ کرنے اُور وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی مختلف دستاویزات یا خط و کتابت ہندکو زبان میں بھی دستیاب ہو گی۔ اپنی نوعیت کی یہ نہایت ہی اہم پیشرفت ہے جس کے بعد اُمید ہے کہ پشاور اُور دیگر اضلاع کے بلدیاتی ایوانوں کی کاروائی بھی ہندکو زبان میں محفوظ کی جائے گی۔ تاریخ جن واقعات کو محفوظ کر رہی ہے‘ اُن میں اہل ہندکو کی بیداری ایک خصوصی اُور الگ باب ہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کے رکن نذیر احمد عباسی ولد حاجی محمد خلیل عباسی کی پیش کردہ قرارداد کے متن کا ہر لفظ لائق توجہ ہے۔ اُنہوں نے کہا ”ہندکو زبان خیبرپختونخوا کی آبادی کے بڑے حصے میں بولی جاتی ہے اُور ہندکو (زبان بولنے والے) اکثریتی علاقوں سے اراکین اسمبلی منتخب ہوتے ہیں لہٰذا یہ ایوان صوبائی اسمبلی سے سفارش کرتی ہے کہ ہندکو زبان کو ”پارلیمانی زبان کا درجہ“ دیا جائے اُور صوبائی اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں اِس متعلق ترمیم لائی جائے۔“ بعدازاں قرارداد کی رسمی وضاحت کرتے ہوئے نذیرعباسی نے کہا کہ ”پشاور‘ کوہاٹ اُور ہزارہ ڈویژن کی اکثریتی آبادی ہندکو زبان بولتی ہے اُور اگر خیبرپختونخوا اسمبلی کی کاروائی ہندکو زبان میں بھی ترجمہ ہوگی تو اِس طرح نہ صرف ہندکو آبادی سے تعلق رکھنے والوں کو پارلیمانی کاروائی سمجھنے میں آسانی ہو گی بلکہ بقول نذیر عباسی ”میرے خیال میں‘ اِس سے ہندکو زبان کو عزت بھی ملے گی۔“ قرارداد پیش ہونے کے بعد اسپیکر نے رکن اسمبلی اُور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش کو اظہار خیال کے لئے مدعو کیا جنہوں نے ہندکو زبان کو بطور پارلیمانی زبان پیش ہونے کی قرارداد کی مکمل حمایت و تائید کی اور کہا کہ ”صوبے کے بڑے شہری مراکز جن میں پشاور‘ ایبٹ آباد‘ ہری پور اُور ڈیرہ اسماعیل خان کے کچھ حصے شامل ہیں‘ وہاں ہندکو بولنے کی اکثریت ہے۔ پشاور کے حوالے سے بات کروں تو میرا انتخابی حلقہ اُور اِس سے ملحقہ پشاور سٹی میں ہندکو بولنے والوں کی اکثریت ہے تو اپنے حلقے کی نمائندگی کرتے ہوئے اُور اِن کی قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ اِس قراداد کو منظور کر لیا جائے۔“ اِس حکومتی بیانئے (تائید) کے بعد اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے انگریزی زبان میں ایوان سے پوچھا کہ کیا موجود اراکین اسمبلی چاہتے ہیں کہ یہ قرارداد منظور ہونی چاہئے؟ اُنہوں نے کہا جو اِس قرارداد کے حق میں ہیں ’یس (ہاں)‘ کہیں تو ہال میں ’یس‘ کی آواز گونجی۔ پھر اُنہوں نے کہا جو اِس قرارداد کے مخالف ہیں وہ ’نو (نہیں)‘ کہیں تو کسی رکن اسمبلی نے مخالفت نہیں کی اُور یوں ہندکو زبان کے پارلیمانی ہونے سے متعلق قرارداد (تکنیکی اعتبار سے) متفقہ طور پر (بنا مخالفت) منظور کر لی گئی۔ یہ ایک تاریخی موقع اُور غیرمعمولی پیشرفت ہے کہ (آئندہ) خیبرپختونخوا قانون ساز ایوان کی کاروائی ہندکو زبان میں ترجمہ ہونے کے علاوہ ہندکو زبان میں دستیاب بھی ہوگی۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے کہ ہندکو زبان کی ترویج و اشاعت کی سعادت بذریعہ ’گندھارا ہندکو اکیڈمی‘ اگر پشاور کے حصے میں آئی ہے تو حالیہ عام انتخابات (جولائی 2018ئ) میں ہزارہ ڈویژن سے تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی ”PK-36 ایبٹ آباد ون“ نذیر عباسی نے بھی اپنا نام اُن ’فدائے ہندکو‘ کی فہرست میں لکھوا دیا ہے جن کے لئے مادری زبان بھی اہمیت رکھتی ہے اُور وہ ہندکو زبان پر فخر کرتے ہوئے اِسے شایان شان (جائز) مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ درحقیقت ہندکو زبان سے متعلق ہر کوشش کا مقصد اُس تعصب کی نشاندہی بھی کر رہا ہوتا ہے جو مادری زبانوں سے روا رکھا جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ہندکو سے متعلق سماجی و علمی ادبی تحریک کے سیاسی پہلو بھی سامنے آ رہے ہیں۔ نذیر عباسی کی جانب سے قرارداد پیش کرنے کی اجازت ملنے کے ساتھ اسپیکر مشتاق احمد غنی (جن کا تعلق بھی ہندکو زبان بولنے والے اکثریتی علاقے ایبٹ آباد کے انتخابی حلقے ’PK-39 ایبٹ آباد 4‘ سے ہے) نے قرارداد پر دستخط کرنے والے اراکین اسمبلی کے نام پڑھنے سے آغاز کرنے کو کہا تو رکن اسمبلی نذیر عباسی نے کہا کہ ”قرارداد کی حمایت کرنے والوں کی فہرست خاصی طویل ہے اُور اِس میں بیس بائیس نام ہیں‘ جن کا تعلق حکمراں تحریک انصاف (ٹریژری بینچ) اُور حزب اختلاف (اپوزیشن) سے ہے۔“ اگر نذیر عباسی اسپیکر کی جانب سے دیئے جانے والے لقمے کی اہمیت کو سمجھتے اُور قیام پاکستان کے بعد سے ہونے والے 72سالہ دور میں ہندکووانوں کی اپنی مادری زبان کے لئے جدوجہد کو مدنظر رکھتے تو یقینا (آج کی تاریخ میں) ہر اُس رکن صوبائی اسمبلی کے نام کی اہمیت ہے جو ’آن دی ریکارڈ‘ ہندکو ماں بولی کی حمایت کر رہا ہے اُور اُن سبھی ناموں کا فخر سے مشتہر (ذکر) ہونا چاہئے کہ جنہوں نے ہندکو زبان کو اُس کی اہمیت و حیثیت کے مطابق مقام دینے کی حمایت و تائید کی ہے
Hindko Language
Shabir Hussain Imam

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں